تحریر۔۔۔عورت_برائے_فروخت

تحریر۔۔۔#عورت_برائے_فروخت

Sad life, sad poetry
Photo by Spencer Gurley Films on pexel

وہ شکل سے شریف گھر کی بیٹی لگ رہی تھی میں پاس گیا 
میرے قریب ہو کر بولی 
چلو گے صاحب 
میں نے پوچھا کتبے پیسے لو گی 
کہنے لگی آپ کتنے دیں گے 
میں نے اس کی نیلی سی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا 
وہ بے بس سی تھی میں نے بولا آو کار میں بیٹھو  
وہ ڈر رہی تھی 
کہنے لگی کتنے آدمی ہو میں نے کہا  ڈرو  نہیں 
میں اکیلا ہی ہوں
وہ خاموش بیٹھی رہی 
پھر کہنے لگی آپ مجھے سگریٹ سے اذیت تو نہیں دو گے نا 
میں مسکرایا بلکل بھی نہیں 
پھر اس نے ایک لمبی سانس بھری 
آپ میرے ساتھ کوئی ظلم تو نہیں کریں گے نا 
آپ چاہے مجھے 500 کم دے دینا لیکن میرے ساتھ برا  نہ کرنا پلیز 
وہ بہت خوبصورت تھی معصومیت اس کی باتوں سے ٹپک رہی تھی 
پھر بھی خدا جانے وہ کیوں جسم بیچنے پہ مجبور تھی 
وہ نہیں جانتی تھی میں کون  ہوں 
میں نے پوچھا کھانا کھایا ہے کہنے لگی نہیں 
میں ہوٹل کے سامنے کار رکی ہوٹل والا مجھے جانتا تھا 
اس نے جلدی سے کھانا پیک کیا مجھے دیا 
میں کار میں بیٹھ گیا آ کر 
میں اپنے آفس کی طرف چل دیا 
چوکیدار نے دروازہ کھولا میں کار پارک کی 
رات کے 11 بج رہے تھے سب اپنااپنا کام کر رہے تھے
وہ مسلسل میری طرف دیکھے جا رہی تھی 
میں نے کھانا پلیٹ میں ڈالا 
اسے کہا ہاتھ دھو لو 
وہ کہنے لگی میں نے نہیں کھانا 
میں نے پیار سے کہا ڈرو  نہیں کچھ نہیں ہو گا 
وہ ہاتھ دھو کر آئی 
میرے سامنے کرسی پہ بیٹھ گئی اور کھانا کھانے لگی 
جب کھانا کھا لیا تو کچھ کھانا بچ گیا کہنے لگی یہ میں گھر لے جا سکتی ہوں میں مسکرایا بلکل بھی نہیں 
وہ چپ ہو گئی برقع اتارنے  لگی میں نے کہا رک جائیں 
میرے پاس آ کر بیٹھ جائیں 
وہ حیران تھی 
میری آنکھوں میں دیکھ کر بولی جلدی سے اہنا کام کریں مجھے واپس چھوڑ آئیں 
میں نے کہا نہیں  پوچھوں گا کیوں کرتی ہو ایسا 
کیوں بیچتی ہو جسم 
بس اتنا کہوں گا چھوڑ سکتی  ہو کیا یہ سب 
وہ میرے چہرے کی طرف دیکھنے لگی آپ پاگل لگ رہیں مجھے 
میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا 
ہاں پاگل ہی ہوں میں 
سب پاگل ہی سمجھتے ہیں مجھے 
وہ کہنے لگی اگر کچھ کرنا  نہیں  ہے تو مجھے واپس چھوڑ کر آو 
میں نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا 
پھر پرس سے 30k نکالے اس کے ہاتھ پہ رکھے 
وہ حیران تھی کہنے لگی میں نے نہیں لینے 
آپ کیوں دے رہے ہیں یہ پیسے مجھے 
میں نے اس کے چہرے پہ ایک تھکن محسوس کی تھی 
وہ اپنے آنسو روکے بیٹھی تھی 
بار بار کہہ رہی تھی مجھے بس واپس چھوڑ  کر آو 
مجھے ڈر لگ رہا ہے
میں  نے اسے یقین دلایا ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے 
اچھا بتاو نا بہت درد دیا نا زندگی نے 
یہ سننا تھا 
اس کی آنکھیں نم ہو گئی تھیں 
جیسے کوئی قیامت گر گئی ہو اس پہ 
میں سمجھ چکا تھا کوئی بہت بڑا درد لیئے گھوم رہی ہے دروازہ کھولا کانپتی آواز میں بولی مجھے چھوڑ کر آو واپس
میں نے اسے بیٹھنے کا کہا 
بتایا میرا نام نعمان راجپوت ہے ڈرو نہیں 
خود کو محفوظ سمجھو 
اسے جب یقین ہو گیا پریشانی والی کوئی بات نہیں تو 
بتانے لگی 
شوہر مر گیا تین بیٹیاں ہیں 
سسرال والوں نے نکال دیا 
ماں باپ فوت ہو چکے ہیں بھائی کوئی ہے نہیں ماموں کے گھر آئی 
ماموں کے بیٹے نے میرے ساتھ زیادتی کی 
میں نے جب مامی کو بتایا تو سب نے مجھے غلط کہا 
مجھے دھکے دے کر گھر سے نکال دیا 
دور کے رشتہ دار نے ایک بڈھے سے میری شادی کروائی اس کے بھی بچے تھے 
اس کے بچوں نے مجھے بہت ذلیل کیا 
پھر وہ شوہر بھی فوت ہو گیا 
بیٹیوں کو لیئے در بدر لیئے بھٹکنے  لگی 
  نہ چھت تھی نہ روٹی تھی 
بھوک افلاس تھی
سڑک پہ کھڑی تھی ایک صاحب آئے کہنے لگے ایک گھنٹے کے 5 ہزار دوں گا 
نہ چاہتے ہوئے ماں کی ممتا حالات کی ستائی ہوئی کیا کرتی آخر چل دی 
اب ہر روز جسم بیچتی ہوں کرائے گا گھر لیا ہے بیٹیوں کو اکیلا چھوڑ کر آتی ہوں 
کیا کروں بہت بار سوچا خود کشی کر لوں لیکن بیٹیوں کو دیکھ کر ہمت نہیں ہوتی 
وہ رو رہی تھی میں زمانے  کی بے حسی محسوس کر رہا تھا 
اس کے سر پہ ہاتھ رکھا اس کہا نعمان تمہارا بھائی ہے آج سے 
تم اپنی بیٹیوں کو لو اور میرے آفس کے اوپر والے ایک روم میں رہو
وہ یقین نہیں کر پا رہی تھی 
کار میں بٹھایا اس کے گھر پہنچا 
بیٹیاں سوئی ہوئی تھیں بہت پیاری تھیں 
گود میں اٹھایا دل کو سکون ملا 
وہ مسلسل روئے جا رہی تھی 
مجھے کہنے لگی آپ فرشتے ہیں 
آپ کون ہیں 
میں اسے اپنے آفس لے آیا 
وہ دعائیں دینے لگی جھولی اٹھا کر نہ جانے کتنی دعائیں دیتی رہی میں نے اسے کہا جا کر سو جائیں 
اپنے آفس روم میں گیا میرے سامنے سے وہ چہرہ گزرا جو ایک لڑکی اپنے شوہر سے جھگڑا رہی تھی 
اسے کہہ رہی تھی مجھے طلاق دو تم کو میری قدر ہی نہیں ہے وہ اپنا گھر جلا رہی تھی اپنی بے وقوفی کی وجہ سے 
وہ بیچاری کیا جانے زمانے کی تلخیاں کیا ہوتی ہیں 
زمانے کا ڈسنا کیا ہوتا ہے میں بتانا چاہتا تھا اپنا گھر جان بوجھ کر اجاڑنے والی لڑکیوں کو طلاقیں لینا آسان ہے اس کے بعد جینا موت ہے 
کبھی ساس کا رونا کبھی نند کا سیاپا کبھی جھٹانی سے لڑائی یہ ہر گھر کی بات ہے 
اس کا ہرگز مطلب طلاق لینا یا گھر اجاڑنا  نہیں ہے کم عمری میں ہی میرے سر کے بال سفید ہو گئے ہیں ہزاروں آنکھوں کے آنسو دیکھ کر 
اپنے گھروں کو آباد رکھو 
خدا کی قسم ایک وقت آتا کے نا بھائی حال پوچھتے ہیں نا سگی بہنیں 
سب وقت کے ساتھ چہرے کے نقاب بدل لیتے ہیں 
نعمان ہر جگہ ہر کسی کو تھامنے کے لیئے کھڑا نہیں  ملے گا ہاں میری قلم شاید کسی کو بربادی سے پہلے بچا لے 
ہمسفر کیسا بھی ہے وہ تمہاری ڈھال ہے 
شادی کے بعد سگے بھائی سے خرچہ لینا بھی بھیگ مانگنے جیسا لگتا ہے 
میری باتیں وہ عورت سمجھ سکتی ہیں جس پہ ایسا کچھ گزرا یے 
ہمسفر جیسا بھی ہے وہ تمہارا لباس ہے یاد رکھنا زمانے کے لیئے تم صرف گوشت کا ایک ٹکڑا ہو 
وہ زمانے گزرے مدت ہوئی جب رشتوں کا پاس رکھا جاتا تھا 
اب رشتوں سے کھیلا جا سکتا ہے ہوس پوری کی جا سکتی ہے پھر پھینک دیا جاتا ہے 
ہاں قسمت میں لکھا ہم بدل نہیں  سکتے لیکن  قسمت خود لکھ بھی سکتے ہیں صبر برداشت اور جھک کر 
نہ جانے کتنی عورتیں صرف اس لیئے گھر اجاڑ لیتی ہیں کے اس کا شوہر اس کو ٹائم نہیں دیتا ہاں یہ شکوہ کرنا درست ہے لیکن کیا گارنٹی ہے اس کے بعد زندگی میں آنے والا اس سے بھی زیادہ برا  ہو 
صرف ایک زندگی ہے اس کو محبت پیار سمجھداری کے ساتھ گزار لو 
میں اس معاشرے کو معاشرہ نہیں کہتا بلکہ بدبودار سماج کہتا ہوں 
یہاں جگہ جگہ پہ لٹیرے کھڑے ہیں عزتوں کے خواہشوں کے بھرم کے بھروسے کے اعتبار کے... 
بس آخر پہ ایک بات کہوں گا 
اگر تم  کو پیٹ بھرنے کے لیئے چاردیواری سے باہر نہیں جانا پڑ رہا 
اگر تم کو جسم نہیں بیچنا پڑ رہا 
اگر تمہارے سر پہ چادر ہے 
اگر لوگ تمہارا سودا نہیں کرتے 
اگر لوگ تم کو وحشیہ نہیں کہتے 
اگر تمہارا دامن پاکیزہ ہے 
اگر تم رات کو محفوظ پناہ گاہ میں سوتی ہو تو 
نہ کرنا برباد اپنا  آشیانہ 
ورنہ روند دی جاو گی نوچ  لی جاو گی 
جو طلاق لیئے بیٹھی ہیں پوچھو ان سے 
وہ سوچ رہی ہوتی ہیں نہ جانے کتنے بچوں کے باپ کی ہمسفر بنوں گی 
نہ جانے وہ کیسا سلوک کرے گا 
اور پھر ساری زندگی یہ طعنہ سنتے گزر جاتی ہے اتنی ہی اچھی ہوتی تو طلاق کیوں لیتی 
خیر وہ لڑکی الحمداللہ محفوظ ہے لیکن وہ روتی ہے 
زمانے کی بے حسی پہ 
اور جانتے ہو کسی عورت  کی بربادی میں کہیں نہ کہیں مرد ہوتا ہے 
محبت کر کے چھوڑنے والا دعویدار ہو یا نکاح کر کے طلاق دینے والا بدبخت 
عورت خدا کی قسم میرے معاشرے کی زنجیروں میں جکڑی  ہوئی ایک قیدی ہے 
کبھی باپ کی پگڑی پہ لٹ گئی تو کبھی ساس کے زہر آلود لہجے پہ 
کبھی شوہر کی انا پہ خاک ہو گئی تو کبھی اولاد کی وجہ سے 
مرد اگر سمجھ جائیں میری اس تحریر کو تو شاید میرا معاشرہ بدل جائے 
ہاں کچھ عورتیں ہوتی ہیں بازارو جن کو جتنی بھی عزت دے دو وہ عزت کی چادر سے زیادہ بازار کی رونق بننا پسند کرتی ہیں پھر ایسی بدبخت عورتیں ایک بدبودار معاشرے کو جنم دیتی ہیں_

Post a Comment

0 Comments